پاکستانی مسیحی قوم گذشتہ ساٹھ برس سے ایک عجیب دوراہے پر کھڑی ہے، اپنے ہی ملک میں اجنبی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ ہر پاکستانی کی طرح ” پاکستان سے زندہ بھاگ” والی پالیسی زور و شور سے چل رہی ہے۔ امیر لوگ پاکستان کو لوٹ کر اپنے بچے پڑھنے کے لئے باہر بھیج دیتے ہیں اور اگلے بچے کی پیدائش کینیڈا، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں کرتے ہیں تاکہ آنے والی نسل کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو۔ غریب ساری عمر صرف ایک بچے کو باہر بھیجنے کے چکر میں مر جاتے ہیں۔
لیکن اسکے باوجود بڑی تعداد میں نوجوان نسل پاکستان میں موجود ہے۔ جس میں پاکستانی مسیحی نوجوان بڑی تعدادمیں ہیں، اکثریت کی طرح اب یہ بھی ملک سے باہر جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ انکا اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔ کبھی پیسے کے زور پر چلنے والی این جی اوز اور منسٹریز نے انکو بے وقوف بنایا۔ پھر پیسے کے زور پر غلط طریقے کی سیاسی شخصیات نے دھوکہ دینا شروع کیا۔
جس کے پاس تھوڑا پیسہ آیا اس نے فورا کوئی پلیٹ فارم بنایا ، جھوٹے سچے وعدے کئے ، باہر جا نے کا راستہ بنایا اور یہ جا وہ جا، انکا ساتھ دینے والے اپنا سا منہ لیکر رہ گئے۔ پیسہ اور کامیابی کے لئے ہر قسم کا راستہ اختیار کرنے والے یہ بہروپئے پادری ، سیاستدان ، سماجی کارکنان اپنی قوم کو ہر قسم کا زخم دینے کو تیار ہیں۔ آج المیہ یہ ہے کہ سیاست کے نام پر مسیحی قوم کو سنہرے مستقبل دکھا نے والے خود باہر کے ممالک میں آسودہ اور آرام دہ زندگی گذار رہے ہیں اور مسیحی عوام اپنے مستقبل سے مایوس اپنے ہی ملک میں بے آسرا اور بے یار و مدد گار ہیں۔
مسیحی نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اب ان تمام لوگوں کی اصلیت جان چکے ہیں ، یہ بہروپئے پادری جو لوگوں کو کھلا دھوکا دیتے ہیں ، صرف اپنے ذاتی فائدے کے لئے قوم کے مستقبل (نوجوانوں) کو استعمال کرتے ہیں ۔ ہمیں ایسے لوگوں کو جو تعلیمی اعتبار سے اور اخلاقی طور پر کوتاہ قد ہیں انکو رد کرنا ہو گا۔ نوجوانوں کو آگے بڑھنا ہو گا ۔
دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم کے میدان میں ثابت قدم رہتی ہیں۔ وہی لوگ آخرکار اچھے گنے جاتے ہیں جو سچا ئی اور دیانتداری سے زندگی گذارتے ہیں۔ بے ایمان اور بد اخلاق لوگ کبھی بھی دنیا میں اچھی شہرت نہیں پاتے۔
مسیحی نوجوا نوں کو اپنے بے ضمیر، مطلب پرست اور دھوکے باز سیاستدانوں کے جھوٹے وعد وں سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا۔ اپنی نظر تعلیم پر اور روشن مستقبل پر رکھنا ہو گی۔ یاد رکھیں ایک پنجابی کہاوت ہے ” جیہڑا پنڈ چے پُکھا او شہر وی پُکھا ہی رہوے گا” اگر ہم پاکستان میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو دوسرے ممالک میں ہم صرف تیسرے درجے کا کام کر کے زندگی گذار دیں گے۔
جیسے ہم اپنی ناکامی کے خود ذمہ دار ہیں ویسے ہی ہم اپنی کامیابی کے بھی ذمہ دار ہیں ۔ خدا انکی مدد کرتا ہے جومحنت کرتے ہیں ، اگر ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو موجودہ نوجوان نسل کی درست سمت میں رہنمائی اور آبیاری کرنا ہو گی۔ ہمارے سامنے پاکستان میں کئی زندہ مثالیں موجود ہیں ۔
میمن کمیونٹی ، آغا خانی کمیونٹی اور پارسی کمیونٹی کی کامیابی پاکستان جیسے ملک میں ہمارے لئے مشعل راہ ہے ، اور اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو ان کمیونیٹیز نے ترقی کلام مقدس پر عمل پیرا معاشروں کو نگاہ میں رکھ کر کی ہے۔ آپ کو انکا کمیونٹی سسٹم بہت سی خامیوں کے باوجود زبردست ترقی کرتا نظر آئے گا۔
دنیا میں پنجابی کمیونٹی بھی کامیاب ہے، سکھ برادری دنیا میں کہیں بھی ہوں انکے گردوارے انکے لئے مرکز ہیں۔ ہم بھی اگر ترتیب اور تعلیم کو مرکز نگاہ رکھیں گے تو علم ہمیں اس قابل کرے گا کہ ہم خدا کو بھی بہتر جان سکیں اور دنیا میں اسکے نام کو جلال دے سکیں ۔ آج ہماری نوجوان نسل ہماری گذشتہ نسل کے سست روئیے اور غلط لوگوں کے انتخاب کی وجہ سے ناکام اور ناآمید ہے ، لیکن خدا پر بھروسہ اور محنت ہمیں ہر مشکل پر غالب کر دے گی۔
خدا گواہ ہے مجھے اپنے مسیحی نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں سے بہت اُمید ہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ اگر ایک بار کسی بات پر ڈٹ جائیں تو پھر دنیا کی کوئی مشکل انکا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے کئی واقعات میں نوجوان مسیحی سینہ سپر ہو کر جام شہادت نوش کر گئے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک لمحہ ٹھہر کر اپنے ارد گرد حالات کا سمجھداری سے جا ئزہ لیں اور کچھ کٹھن فیصلے کرنے ہوں گے۔ نوجوانوں کو تعلیم کے شعبہ میں آگے بڑھنا ہو گا، آج پاکستان اور دنیا کو با کردار اور ا نسان دوست نوجوانوں کی ضرورت ہے ، ہمارے مسیحی نوجوان اس خلا کو پُر کرسکتے ہیں۔ ہمیں اگر پکستان میں اپنی قوم کو آگے بڑھانا ہے تو تعلیم حاصل کرنا ہو گی۔ کمپیوٹر کے شعبہ میں سنجیدگی سے قدم رکھنا ہو گا، ملکی قا نون کی تعلیم حاصل کرنا ہو گی،وکیل بننا ہو گا۔ ہر شعبے میں تعلیم حاصل کر کے اپنی قوم کی نمائندگی کرنا ہو گی۔ ہاں یہ سوال بہت اچھا ہے کہ کیا ہمیں پاکستان میں موقع ملے گا مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے کا؟ یاد رکھیں کہ دنیا کو تعلیم یافتہ اور باکردار لوگوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر ملک میں نہیں تو بیرون ملک بہت چا نسز ہیں اور آئندہ بھی ملیں گے۔ ایک خاص بات ہمیں کلام مقدس اور خدا کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا تاکہ ہم جہاں بھی جائیں ہمیں کامیابی نصیب ہو۔ اور ہمارا کردار دیانتداری اور ایمانداری کے زیور سے آراستہ ہو۔ وہ تمام مسیحی جو دیانتدار اور باکردار ہیں انہیں آگے بڑھنا ہو گا، صرف شکایت کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا، خود آگے بڑھنا ہو گا ۔
ہمارے نوجوان پاکستانی معاشرے کی بے راہ روی کا شکار ہیں ، روزمرہ کی گفتگو میں گندی گالیاں دینا اور بات بات پر ماں بہن کی گالی ہمارے منہ سے بار بار نکلتی ہے۔ ہمیں کلام مقدس پر عمل کرنا ہو گا اور اپنی اصلاح کرنا ہو گی، ہمیں برکت دینے کے لئے خدا نے چنا ہے ، گندی گالیاں اور غلیظ گفتگو کے لئے نہیں۔